این اے 120: ایک فیصلہ کن معرکہ

لاہورکا حلقہ این اے 120: ملکی سیاست کا ایک فیصلہ کن معرکہ

تحریر: سید سبطین شاہ

ظاہراً تو این اے 120 لاھور قومی اسمبلی کا صرف ایک حلقہ ہے لیکن اس نشست کے لیے مقابلہ اپنی اہمیت کی اعتبار سے ملکی سیاست کا فیصلہ کن معرکہ ہے۔

یہ وہ حلقہ ہے جس سے عدالتی فیصلے کے تحت نااہل ہونے والے وزیراعظم میاں نوازشریف یا ان کی جماعت ن لیگ کے امیدوار ایک لمبے عرصے سے مسلسل  جیتتے چلے آرہے ہیں۔

میاں نوازشریف نے جو کنٹینرکی یلغارسے بچتے بچاتے، بلاخر اس سال اٹھائیس جولائی کو ایک کیس میں ججوں کی جنبش قلم کے سامنے کھڑے نہ ہوسکے اور نااہل قرار پائے، اپنی خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی اس نشست کے لیے اپنی بیماراہلیہ بیگم کلثوم نواز کو کھڑا کیاہے۔

اس ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز کے مقابلے میں ۴۳ امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے کچھ اہم ہیں اور بہت سے عام امیدوار ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کچھ دن پہلے ہی امیدواروں کی فہرست مرتب کرلیں ہیں اور امیدواروں کو انتخابی نشانات بھی دیئے جاچکے ہیں۔ حلقے میں کل دوسوبیس پولینگ اسٹیشن اور پانچ سوتہتر پولینگ بوتھ ہیں۔

نوازشریف کی اہلیہ کے مقابلے میں جو بھاری بھرکم خاتون امیدوارہیں، ان کا نام ڈاکٹریاسمین راشد ہے جو نہ صرف بگیم کلثوم نواز کی ہم عمر ہیں بلکہ اپنی مہم کے دوران لاہور کے اس حلقے کی گلی گلی سے بھی واقفیت حاصل کرچکی ہیں۔

بیگم کلثوم جو نوازشریف کی بیوی ہونے کے علاوہ مشہور زمانہ غلام محمد عرف گاما پہلوان کی پوتی ہیں، اس حلقے میں سیاسی اعتبار سے کسی دوسرے امیدوار سے کم نہیں۔ وہ مشرف کی کودتا کے بعد  نوازشریف کی اسیری کے دوران میں بھی اپنے شوہر کی رہائی کے لیے میدان میں آچکی ہیں۔ اس دوران انہیں مسلم لیگ ن کا عبوری سربراہ بھی مقرر کیاگیاتھا۔

ان کے مقابلے میں ڈاکٹر یاسمین راشد پیدا تو چکوال میں ہوئیں لیکن ابتدائی تعلیم کے بعد میں لاہور منتقل ہوگئیں اور پھر وہیں پر فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں میڈیسن میں گریجویشن کی۔ مختلف سماجی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد وہ سیاست میں آئیں اور اپنے سسرجوذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت میں عہدیدار رہ چکے ہیں، کے مشورے پرسات سال قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئیں ہیں۔

Image result for dr yasmeen

یہ مقابلہ اس اعتبار سے بھی اس بارسخت ہوگاکیونکہ ڈاکٹریاسمین چارسال قبل کے انتخابات میں اسی نشست سے نوازشریف کے مقابلے میں باون ہزار ووٹ لی چکی ہیں۔

ان دونوں امیدواروں کے علاوہ تیسرے اہم امیدوار پیپلزپارٹی کے فیصل میر ہیں جو معروف دانشور مرحوم پروفیسر وارث میر کے فرزند اور جنگ گروپ کے صحافی و جیو اینکرپرسن حامد میر کے بھائی ہیں۔

فیصل میر خاندانی اعتبارسے ایک بڑے باپ کے بیٹےہیں جو حکومتوں کے ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی خودداری میں شہرت رکھتے تھے۔ فیصل سیاسی اعتبار سے اتنا قد کاٹھ نہیں رکھتے جتنا دوخواتین رکھتی ہیں۔ البتہ ضیاء دور میں انہیں ایک مقدمے کا سامنا بھی کرناپڑا کیونکہ اس زمانے ان کے والد پروفیسر وارث میر ضیاء کے بڑے نقاد تھے۔ وہ طالبعلمی کے زمانے میں ہلے کالج کے پیپلزسٹوڈنس فیڈریشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور گذشتہ انتخابات میں لاہورکے صوبائی حلقے سے امیدوار بھی تھے لیکن صرف سترہ سو ووٹ لے کرناکام ہوئے۔

ایک اور امیدوار جماعت اسلامی کے ضیاء الدین انصاری ہیں جو عمرمیں فیصل میر سے کچھ بڑے ہیں اور تعلیمی اعتبار سے سیاسیات اور قانون کی ڈگڑی کے حامل ہیں۔

ضیاء انصاری نے اسلامی جمعیت طلبہ سے سیاست شروع کی اوراس تنظیم کی صدر رہے اور پھر ریلوے یونین کی سیاست سے ہوتے ہوئے بارروم کی سیاست اور اب عملی سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔

ان ضمنی انتخابات میں علامہ طاہرالقادری کی جماعت عوامی تحریک بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ اشتیاق چوہدری کو عوامی تحریک نے اپنا امیدوار نامزد کیاہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور اپنی پارٹی کی طرف سے لاہورمیں ایک صوبائی نشست کے لیے پہلے بھی میدان میں آچکے ہیں جہاں انہیں صرف چھبیس ووٹ ملے تھے۔

حلقہ این اے 120 میں انتخابی مہم ختم ہوچکی ہے۔ اس مہم کے دوران امیدوار ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔

اس حلقے میں پچھلے ہفتے کے دوران سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ ن لیگ والوں نے اپنا زور لگایا اور تحریک انصاف والوں نے اپنا پرچار کیا۔ پیپلزپارٹی والے اپنا منشور پیش کرتے رہے۔

ن لیگ کی طرف سے مریم نواز زیادہ سرگرم رہیں جو اپنی بیمارماں اور معزول والد کی وکالت کرکے لوگوں کی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کرتی رہیں جبکہ اسلام آباد میں تین سو کنال کے گھرمیں رہنے والے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان دعویٰ کرتے رہے کہ اتوار کو انصاف اور آزاد عدلیہ کو ووٹ پڑے گا۔

پیپلزپارٹی کے قمرزمان کائرہ جن کی اپنی سفیدکالر کرپشن پاکستان سے شمالی یورپ تک پھیلی ہوئی ہے، کا کہناتھا کہ حدیبیہ کیس کھل گیا، اب شہبازشریف اور حمزہ کی باری ہے۔ نواز شریف کو اس لیے نکالا کہ وہ صادق و امین نہیں۔

ان موصوف سے تو اتنی عرض ہے، او بھائی، ذرا اپنے گریبان میں تو دیکھو کہ خود کتنے صادق اور امین ہو؟ یا اگر اتنے سچے اور ایماندار ہوتو کیا پارلمان میں جھوٹوں کی نشاندہی کرکے ان پر مقدمہ چلواسکتے ہو؟

سارا زمانہ اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملانی والی جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق اپنی جماعت کی انتخابی مہم کے دوران کہتے ہیں کہ جو31سال میں کام نہ کرسکے وہ ووٹ لے کر کام کیسے کریں گے؟ ہمارا مقابلہ اسٹیٹس کو کے ساتھ ہے۔

ان مولاناصاحب سے راقم اتناکہہ سکتاہے، ارے بھائی، اسٹیٹس کو فروغ دینے میں آپ کی جماعت کا تو زیادہ ہاتھ  ہے جو ہرمارشل لاء کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی اور اسٹیٹس کو فروغ پاتا رہا۔

حلقہ این اے ایک سو بیس میں تمام اہم اور غیر اہم امیدواروں کی ذاتی اور جماعتی حیثیت اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں لیکن اصل مقابلہ دو ہی امیدواروں کے مابین ہے۔ یہ امیدوار مسلم لیگ ن کی بیگم کلثوم نواز اور تحریک انصاف کی ڈاکٹریاسمین راشد ہیں۔ مقابلہ انتہائی سخت اور کانٹے دار ہے۔ ڈاکٹریاسمین کے لیے ن لیگ کی امیدوار کو ہرانا بہت ہی مشکل ہے اور کلثوم نواز کے لیے اس بار پی ٹی آئی کی امیدوار کا مقابلہ کرنا بھی بہت محال ہے۔

یہ مقابلہ صرف دو امیدواروں کے مابین نہیں بلکہ دو طاقتوں کے درمیان ہے اور اس حلقے کے نتائج پورے ملک کی سیاست کے حوالے سے فیصلہ کن ہوں گے۔ ان نتائج کے اثرات بہت ہی دور رس ہوں گے اور اس سے آئندہ سال کے پارلمانی انتخابات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس حلقے کے نتیجے سے یہ بھی اخذ ہوجائے گا کہ آئندہ سال ملکی سیاسی صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے؟ اب اتوار کو واضحح ہوجائے گا کہ کس کا پلڑا بھاری ہوگا اور کون سی طاقت یہ مقابلہ جیتے گی؟




Recommended For You

Leave a Comment